مجاہد تحریک آزادی پاکستان مولانا عبدالستار خان نیازی۔
دنیا میں سب سے پہلی مرتبہ پاکستان زندہ باد کہنے والی آواز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Abdul Sittar Niazi |
پیدائش: یکم اکتوبر 1915ء
وفات: 2 مئی 2001ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالستار خان نیازی میانوالی کے سب سے معتبر سیاست دان تھے انہوں نے تحریک پاکستان میں شاندار کردار ادا کیا تھا۔ آج کل کے پاکستانی لیڈروں میں خاص طور پر مذہبی لیڈروں میں کوئی ایسا موجود نہیں جو ان کا ہمسر قرار دیا جا سکے۔
مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915ء کو ضلع میانوالی کے گاؤں اٹک پنوالا تحصیل عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ذوالفقارخان ایک نیک سیرت اور پاکباز انسان تھے۔ دینی گھرانہ ہونے کی وجہ سے مولانا نیازی کو بچپن ہی سے مذہبی ماحول میسر آیا۔
1933ء میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے میٹرک پاس کیا اور حصول تعلیم کیلئے لاہور تشریف لے آئے۔ عیسیٰ خیل سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ لاہور میں آپ نے انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام” اشاعت اسلام کالج” میں داخلہ لے لیا اور 1936ء میں”ماہر تبلیغ” کی حیثیت سے کالج میں ٹاپ کیا۔
اس کالج سے منشی فاضل کرنے کے بعد 1940ء میں ایم اے کیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔
اسی دوران مولانا عبدالستار خان نیازی کی ملاقات حکیم الامت علامہ اقبال سے ہوئی۔ اسرار خودی کے مطالعے نے فارسی پڑھنے کے شوق کو اِس قدر ابھارا کہ مولانا نیازی نے چھ ماہ میں منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ اسی سال آپ نے ایف اے کا امتحان دیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے 1938ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لے لیا اور ایم اے کرنے کے بعد 1942ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں ڈین آف اسلامک اسٹیڈیز کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔
اسی دوران انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پنجاب مسلم فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند میں کانگریس اور مسلم لیگ کا بڑا چرچا تھا۔ نیشنلسٹ طلباء کی تنظیم ”نیشنل اسٹوڈینس فیڈریشن” تعلیمی اداروں میں چھائی ہوئی تھی۔ چنانچہ 1936ء میں مولانا نیازی، مولانا ابراہیم علی چشتی ، میاں محمد شفیع (م،ش) مشہور صحافی حمید نظامی اور عبدالسلام خورشید نے علامہ اقبال کی قیام گاہ پر اُن کے مشورے سے طلباء کی تنظیم ”دی مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن ”کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلم طلباء کو نیشنلسٹوں کے اثر سے بچانا اور سیاسی شعور اجاگر کرکے قیام پاکستان کی راۂ ہموار کرنا تھا۔
مولانا نیازی 1938ء میں اِس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد آپ نے ”مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن ”کے منشور میں پہلی تبدیلی یہ کی کہ ”مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک الگ خطہ زمین جس میں مسلمانوں کی حکومت ہو”کو خلافت پاکستان”کا نام دیا۔
1939ء میں مولانا نیازی نے مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن کی جانب سے”خلافت پاکستان اسکیم ”نامی پمفلٹ شائع بھی کیا جس کی ایک کاپی قائداعظم محمد علی جناح کو بھی بھجوائی گئی، جسے قائد اعظم نے مولانا نیازی سے ملاقات میں ایک گرم اسکیم قرار دیا۔
23 مارچ 1940ء کو جب قرار داد لاہور پیش ہوئی ،اُس وقت مولانا نیازی ایم اے فائنل ایئر میں زیر تعلیم تھے۔ اِس اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام مقررین کا مدعا اگرچہ پاکستان کا قیام ہی تھا مگرکسی نے اپنی تقریر میں پاکستان کا نام نہیں لیا۔ یہ اعزاز صرف مولانا عبدالستار خان نیازی کو جاتا ہے کہ آپ نے پہلی بار اِس اجتماع میں”پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگایا جو مسلمانوں کے کسی عظیم اجتماع میں پاکستان کیلئے لگایا گیا پہلا نعرہ تھا۔
مولانا نیازی نے میانوالی ڈسٹرکٹ میں مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ضلع میانوالی کے صدر سمیت مسلم لیگ کے کئی اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔
بعدازاں وہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی کونسل کے رکن بھی بنے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے حسین شہید سہروردی کی پاکستان عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
1945ء میں قائد اعظم نے آپ کو ضلع میانوالی سے پرونشل اسمبلی کا ٹکٹ دیا جس پر آپ نے یونینسٹ پارٹی کے امیداوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔
1946ء اور 1951ء میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
مولانا نیازی قیام پاکستان کے بعد 1951ء تک مسلم لیگ سے وابستہ رہے مگر جب مسلم لیگ کو عملاً ایک لمیٹیڈ کمپنی بنا دیا گیا تو آپ نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے آپ کو خلافت پاکستان ، جس کا مقصد ملکی قوانین کو شریعت کے مطابق بنانا اور اسلامی نظام کا مکمل نفاذ تھا، کیلئے وقف کر دیا۔
1953ء میں انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت میں فعال کردار ادا کیا جس پر انہیں مارشل لاء کی ایک فوجی عدالت نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ سزائے موت سنائی۔ بعدازاں ان دونوں رہنمائوں کی یہ سزا 14 سال قید بامشقت میں تبدیل ہو گئی۔
1970ء کی دہائی میں انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور اس کے سیکریٹری جنرل اور مرکزی صدر کے عہدے پر فائز رہے۔
1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1994ء سے 1999ء تک سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ اسی دوران انہوں نے وفاقی وزیر مذہبی امور کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔
مولانا نیازی عمر بھر ایک سربکف مجاہد کا کردار ادا کرتے رہے اور قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات 2 مئی 2001ء تک اپنے مشن کی تکمیل، مقصد کے حصول اور ریاست کی فوز و فلاح کیلئے کمر بستہ رہے۔
تحریک پاکستان میں مولانا عبدالستار خان نیازی کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔یہ مولانا عبدالستار خان نیازی ہی تھے جنھوں نے پنجاب میں قائداعظم کی تائید و حمایت میں پہلی اور موثر آواز بلند کی۔ سر سکندر حیات کی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے مسلم لیگ کے قیام و استحکام کی راہ ٔہموار کی اور مسلم لیگ کو اہل پنجاب کے دلوں کی ڈھرکن بنا دیا۔
مولانا عبدالستار خان نیازی پاکستان بنانے والوں میں سے ایک تھے۔ اُن کا اوڑنا بچھونا سب ہی کچھ پاکستان اور نفاذ اسلام کیلئے تھا۔ وہ فنافی الپاکستان تھے۔ وہ پاکستان کو دنیا کے سامنے خلافت راشدہ کی طرز پر ایک جدید فلاحی ریاست کی طورپر دیکھنا چاہتے تھے۔
مولانا نے اِس مقصد کیلئے متعدد کتابچے اور کتابیں بھی لکھیں جن میں”خلافت پاکستان، مسودۂ آئین پاکستان، منشور خلافت، اتحاد بین المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔
2 مئی 2001ء کو مولانا عبدالستار خان نیازی میانوالی میں وفات پا گئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی مدرسہ و جامع مسجد انجمن فلاح المسلمین، روکڑی موڑ، میانوالی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
Mujahid Tehreek-e-Azadi Pakistan Maulana Abdul Sattar Khan Niazi.
Long live Pakistan for the first time in the world.
.. .. .. .. ...
Born: October 1, 1915
Died: May 2, 2001
.. .. .. .. ...
Maulana Abdul Sattar Khan Niazi was the most respected politician of Mianwali. He had played a great role in Tehreek-e-Pakistan. There is no one among today's Pakistani leaders, especially religious leaders, who can be compared to them.
Mujahid Millat Maulana Abdul Sattar Khan Niazi was born on October 1, 1915 in the village of Attock Panwala in Mianwali District in Isa Khel Tehsil. His father Zulfiqar Khan was a virtuous and pious man. Being a religious family, Maulana Niazi was exposed to the religious atmosphere from his childhood.
In 1933, Maulana Abdul Sattar Khan Niazi passed matriculation and came to Lahore to study. After matriculating from Isa Khel, he enrolled in Ishaat Islam College, Lahore for religious studies. In Lahore, he enrolled in Ishaat-e-Islam College under the auspices of Anjuman-e-Hamaat-e-Islam and in 1936, he topped the college as an "expert preacher".
After graduating from this college, he did his MA in 1940 and joined the teaching department at Islamia College, Lahore.
Meanwhile, Maulana Abdul Sattar Khan Niazi met Allama Iqbal. The study of Israr Khodi aroused his interest in reading Persian to such an extent that Maulana Niazi passed the examination of Munshi Fazil in six months. In the same year, he took the FA exam and got admission in BA in Islamia College, Lahore.
Maulana Abdul Sattar Khan Niazi enrolled in Islamia College Lahore in 1938 for MA in Arabic and after doing MA he also served as Dean of Islamic Studies in Islamia College Lahore in 1942.
At the same time, he stepped into the field of politics and was elected president of the Punjab Muslim Federation.
This was the time when the Congress and the Muslim League were the talk of the Indian subcontinent. The Nationalist Students' Federation, a nationalist student organization, was entrenched in educational institutions. Thus, in 1936, Maulana Niazi, Maulana Ibrahim Ali Chishti, Mian Muhammad Shafi (M, S), famous journalist Hameed Nizami and Abdul Salam Khurshid, on the advice of Allama Iqbal, founded the student organization "The Muslim Students Federation" which The aim was to protect Muslim students from the influence of nationalists and to pave the way for the establishment of Pakistan by raising political awareness.
Maulana Niazi was elected president of this organization in 1938. After being elected president, he made the first change to the manifesto of the Muslim Students Federation, calling "a separate Muslim-majority territory with Muslim rule" the Khilafah of Pakistan.
In 1939, Maulana Niazi published a pamphlet called "Khilafah Pakistan Scheme" by the Muslim Students Federation, a copy of which was also sent to Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, which Quaid-e-Azam described as a hot scheme in his meeting with Maulana Niazi.
When the resolution was introduced in Lahore on March 23, 1940, Maulana Niazi was studying in MA final year. Although the subject of all the speakers attending the meeting was the establishment of Pakistan, no one mentioned Pakistan in his speech. This honor goes only to Maulana Abdul Sattar Khan Niazi for the first time he raised the slogan "Long live Pakistan" in this gathering which was the first slogan for Pakistan in a great gathering of Muslims.
Maulana Niazi reorganized the Muslim League in Mianwali district as well as held several senior positions in the Muslim League, including the president of the Muslim League in Mianwali district.
He later became the secretary of the Punjab Muslim League and a member of the Central and Provincial Councils of the All India Muslim League. After the formation of Pakistan, he joined the Pakistan Awami Muslim League under Hussain Shaheed Suhrawardy.
In 1945, the Quaid-e-Azam gave him a ticket to the Provincial Assembly from Mianwali district, which he won by defeating the Unionist Party candidate.
In 1946 and 1951, he was elected a member of the Punjab Assembly.
Maulana Niazi remained associated with the Muslim League after the establishment of Pakistan until 1951, but when the Muslim League was practically made a limited company, he separated from the Muslim League and established himself as the Khilafah of Pakistan, which aims to bring the country's laws in line with Sharia. And the Islamic system was fully implemented, dedicated to.
In 1953, he played an active role in the movement for the protection of the end of prophethood, for which he was sentenced to death by a military court of martial law along with Maulana Abul Ali Maududi. The two leaders were later sentenced to 14 years in prison.
He joined the Jamiat Ulema-e-Pakistan in the 1970s and served as its secretary general and central president.
He was elected a member of the National Assembly in the 1988 and 1990 general elections and was a member of the Senate of Pakistan from 1994 to 1999. He also served as Federal Minister for Religious Affairs.
Maulana Niazi continued to play the role of a staunch Mujahid throughout his life and after the establishment of Pakistan till his death on May 2, 2001, he continued to work for the fulfillment of his mission, achievement of purpose and prosperity of the state.
The role of Maulana Abdul Sattar Khan Niazi in Tehreek-e-Pakistan is as clear as day. It was Maulana Abdul Sattar Khan Niazi who raised the first and most effective voice in support of Quaid-e-Azam in Punjab. By fighting the conspiracies of Sir Sikandar Hayat in a manly manner, he paved the way for the establishment and stability of the Muslim League and made the Muslim League the heartbeat of the people of Punjab.
Maulana Abdul Sattar Khan Niazi was one of the founders of Pakistan. His cover was all for Pakistan and the implementation of Islam. He was a fan of Pakistan. He wanted to see Pakistan before the world as a modern welfare state in the style of Khilafah Rashida.
Maulana also wrote several pamphlets and books for this purpose, including “Khilafah Pakistan, Draft Constitution of Pakistan, Manifesto Khilafah, Inter-Muslim Unity, etc.”
Maulana Abdul Sattar Khan Niazi passed away on May 2, 2001 in Mianwali. Maulana Abdul Sattar Khan Niazi Madrasa and Jamia Masjid Anjuman Falah Muslimeen, Rokri Mor, Mianwali are comfortable.
No comments:
Post a Comment
Thank you for comenting