Books, GK and Maths Skill

Getting books and reading and taking expertise

Ad

ads
Responsive Ads Here

Bitay zamanay/Puranay log

 #بیتے_زمانے


*آخری لوگ...*

*1950 سے 1999 میں پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں.*

کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں 

جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔

جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھیں۔

جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔

جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔

جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔

ہم وہ آخری لوگ ہیں

جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔

گاؤں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے. 

پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی. 

ہم وہ آخری لوگ ہیں

جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے. 

ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ

ہم گاؤں کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے. 

ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے

ہم وہ بہترین لوگ ہیں

جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔

ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں

جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔

ہم وہ لوگ ہیں جو۔

رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو اکثر گاؤں والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری ہم تھے۔

کبھی وہ بھی زمانے تھے

سب صحن میں سوتے تھے

گرم مٹی پر پانی کا

چھڑکاؤ ہوتا تھا

ایک سٹینڈ والا پنکھا

بھی  ہوتا تھا

لڑنا جھگڑنا سب کا

اس بات پر ہوتا تھا

کہ پنکھے کے سامنے 

کس کی منجی نے ہونا تھا

سورجُ کے نکلتے ہی

آنکھ سب کی کھلتی تھی

ڈھیٹ بن کر پھر بھی

سب ہی سوئے رہتے تھے

اور اب ﻣﻮﺑﻞ ﺁﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔

ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ‘

ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﺭﯾﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔

ﺟﻦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺭﺍﺕ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ۔

ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﮐﻮﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔کیونکہ  ﺍﺏ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺞ ﮨﮯ ‘ ﻓﺮﯾﺰﺭ ﮨﮯ ‘ 

ﺍﺏ ﺗﻨﺪﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔

ﺍﺏ ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ 

ﺳﻠﺘﮯ-

 ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔

ﺑﭽﮯ ﺍﺏ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ' ﯾﺎﺭ ‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺑﻠﺐ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ ﺍﯼ ﮈﯼ ﻣﯿﮟ۔

ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺑﻞ ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮔﺪﮮ۔

ﺍﺏ ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺗﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔

ﺟﻦ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﮐﯿﺎﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔

ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﮉ ﻻﺋﻦ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘

ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ خاندان کے بچوں کے لیئے کلونے '  ‘ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔


ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﯿﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﺮﺳﯿﺎﮞ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ... ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﺳﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘ ﺳﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺑﮭﯽ۔

ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘ 

ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻂ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﺌﮯ ﺳﮯ ﺧﻂ ﭘﮍﮬﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮈﺍﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﮍﮪ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺴﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔

ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ' ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻓﺘﺢ ﻗﺮﯾﺐ ‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ '' ﺍﻭﮐﮯ ‘‘ ﻧﮩﯿﮟ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ‘ ‘ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﮨﺮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔

ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﻮﻧﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ‘ ﭘﻤﭗ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻧﯿﺎﺯ ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ '' ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ " ﺍﻭﺭ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ تھا-

ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺩُﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ‘ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ' ﺑﮩﺎﻧﮯ ‘ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔

ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮐﮭﮯ۔

ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﻟﯿﭗ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘

ﻟﯿﮑﻦ ... ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔

ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭨﻮﺗﮫ ﭘﯿﺴﭧ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﮩﻮﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮈﺑﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ‘ * ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ‘ ﺳﺮﺩﺭﺩ ‘ ﺑﻠﮉ ﭘﺮﯾﺸﺮ ‘ ﻧﯿﻨﺪ ﺍﻭﺭﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ * ۔💔

اب تو وہ صحن میں سونے کے

سب دور ہی بیت گئے

منجیاں بھی ٹوٹ گئیں 

رشتے بھی چھوٹ گئے

بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔


کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل بے حس زمانہ آ گیا۔

لیکن اج کا جینیریشن جب ان باتوں کو سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ اسے جہالت کا نام دیتا ہے۔۔۔کیونکہ ان لوگوں نے یہ دور اپنی زندگی میں محسوس ہی نہیں کی ہے ۔۔تو اس کی قدر کیسے ہوگی۔۔۔۔۔۔

یہ تو ہم ہے جو اج بھی یہ حسرت دل میں بٹھائے ہیں کہ۔۔

"کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے "

کیونکہ

ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔ 

یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔ 

ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔

جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔ 

مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔

کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔ 

اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔ 

دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔ 

اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔ 

لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔ 

وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔ 

اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔ 

اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔ 

اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔ 

شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔ 

اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔

پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔ 

اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔ 

اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔ 

مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔ 

ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔ 

اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔ 

ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔ 

ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔ 

لیکن ۔۔۔۔۔ 

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا



# بیتے_زمانے


 * Last people ... *

 * We are lucky people born between 1950 and 1999. *

 Because we are the last people

 Who sat in mud houses and listened to fairy tales.

 Who also read stories by lantern light.

 Who wrote their feelings in a letter to their loved ones.

 Who sat on the tots and read.

 Who saw the oxen plowing.

 We are the last people

 Who drank water from clay pots.

 Eat mango and guava from the village tree.

 He also scolded the elders of the neighborhood but never showed any bullying.

 We are the last people

 Those who saw the Eid moon applauded. And also wrote Eid cards for family, friends and relatives with their own hands.

 Because there is no one like us

 We stood shoulder to shoulder with each other in every joy and sorrow of the village.

 We are the last people to fix a TV antenna and wait a week to see a movie

 We are the best people

 Who thickened the writing ink.  Who considered it an honor to ring the school bell.

 We are the lucky ones

 Who saw the true sweetness of relationships.  There is no one like us.

 We are the people who.

 At night, the villagers would take the bed out of the house and sleep in the open air. During the day, the villagers would often sit under a tree in the summer and gossip, but they were the last of us.

 Once upon a time

 Everyone slept in the courtyard

 Water on hot soil

 There was spraying

 A stand fan

 Used to happen

 Fighting, quarreling, everyone

 It used to happen

 That in front of the fan

 Whose savior was to be?

 As soon as the sun rises

 Everyone's eyes were open

 Even after becoming straightforward

 Everyone was asleep

 And now ﺁﺋﻞ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ.

 ﺳﮯ ﺗﮏ ﺗﮏ ﮨﺮ

 ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﭘﺮ.

 ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﺗﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﺍﺏ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﺑﺠﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ.

 ﺩﻥ ﻟﯿﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺭﮨﯽ ﺭﮨﯽ کی کی ون

 ﺗﻨﺪﻭﺭ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ.

 ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﮐﮯ

 ﺳﻠﺘﮯ-

  ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﮨﮯ.

 ﺍﺏ ﺑﺎﭖ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﺑﻮ ﺍﺑﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﯾﺎﺭ 'ﯾﺎﺭ ‘ﯾﺎﺭ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ.

 ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ.

 ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮨﮯ ﮨﮯ ﻟﮩ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﻧﮧ ﮐﮯ.  ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻣﻮﭨﮯ.

 ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﭼﻼﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﮯ.

 ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺗﮭﮯ ﺗﮭﮯ ‘ﺗﮭﮯ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ.

 ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮯ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ.  ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ.

 ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻻﺋﻦ ﭘﺮ ﮐﺎﻝ ﮐﺎﻝ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﺗﮭﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺗﮭﺎ ﺗﮭﺎ

 کل ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﻋﺰﯾﺰ ﺁﺗﺎ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ کل Clones for the children of the family '' ‘ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ.


 ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺏ ﺍﺏ ﺍﺏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺎﻟﮑﻞ

 ﮐﺴﯽ ﺍ ﺍ ﺳﺘﺎﺩ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ﺍﺍ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ.

 ﺳﺐ ﮐﺮ ﮐﺮ ﭨﯽ

 ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﻭﮦ ﺧﻂ.  ﺗﻮ ﮐﺎ ﮐﺎ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺧﻂ ﺧﻂ ﺗﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮍﮪ ﭘﮍﮪ.

 ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺁﻧﺎ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ 'ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻗﺮﯾﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮍﮪ ﭘﮍﮪ ﺍﻭﺭ.

 ﻭﮦ ﺗﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ '' ﺍﻭﮐﮯ '' ﻧﮩﯿﮟ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ '' ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ.

 ﮔﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺩﺍﺭ ﺩﺍﺭ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺣﻘﯿﻘﯽ.

 ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍ ﺍ ﺩﮬﺮ ﺩﮬﺮ.

 ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﺗﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﺩﺍﺭ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺩﺑﺎﺋﮯ ﺩﺑﺎﺋﮯ ﺩﺑﺎﺋﮯ ﭘﻤﭗ ﭘﻤﭗ ﭘﻤﭗ ﭘﻤﭗ ﭘﻤﭗ ﺗﮭﺎ.

 ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ.  'ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ' 'ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ "ﺁﻥ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ

 ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺩ ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﺁﺋﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺳﮯ

 ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ.

 ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺣﻘﮯ ﺭﮨﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻥ.

 ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ.

 ﮐﺎ ﮐﯽ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ

 ﻟﯿﮑﻦ ... ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ.  ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﺌﮯ.

 ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﭧ ﭘﯿﺴﭧ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﯾﺴﺎ * * '* ﺟﺲ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ' ﺳﺮﺩﺭﺩ 'ﺑﻠﮉ ﮨﮯ  ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﮞ * .💔

 Now they sleep in the courtyard

 They all passed away

 Manjis were also broken

 Relationships were also lost

 In the era of very beautiful pure relationships, people were less educated and sincere. Now, when the time is read and written, it is lost in apathetic interests and selfishness.


 What a great read, but in fact the time has come.

 But when today's generation hears or sees these things, they call it ignorance ... because these people have never felt this era in their lives ... so how will it be worth it ...  ۔

 It is we who still have this longing in our hearts that ...

 "I wish that ignorance had returned."

 Because

 When we opened our eyes to our society, we encountered a beautiful ignorance.  Our village was deprived of facilities like roads, electricity and telephone but the satisfaction was such that every facility of life was available to us.  The most beautiful thing in the universe was love.  There was no one else, everyone was their own.  All the uncles, aunts and grandparents on Nanyal's side used to be.  All the aunts, uncles, aunts and uncles on the side of Dadial used to be grandparents.

 When we got a new consciousness, we found out that they were not our uncles and aunts but people from other communities.

 Our elders were very ignorant. If there was only one work, they would all do it together.  Those who had oxen would come and cultivate other people's land.  There was no need to invite the family for the mowing, but the mowers themselves would send the message that we are coming some day.  They were mad, playing drums on the lawn and doing their best as if they were going to get a reward.  When someone built a house, he would carry many tons of wood from the forest on his shoulders through difficult paths, then he would put many tons of mud on the roof and in the evening he would return home after enjoying ghee sugar.

 When someone got married, the groom would have applied henna just like the rest of the family would have applied henna because the rest of the ignorant people would have come and started working on their own.  He was so crazy that if he befriended someone, he would bathe him like Sassi jumped into a river on a raw pit.

 Mak kotai (corn) cleans a grain like a young lady fixes her hair.

 How crazy they were to go around with oxen in the scorching sun on wheat as if they were being punished.

 If one of them died or went away, everyone would weep with their beards so that they would not be able to identify who died.

 Celebrate the happiness of other people's children as if they have their own children.

 They were so ignorant that they did not even know about crimes and cases.

 But then time changed. Now it was the time of the new generation. It was the time of the educated generation who began to understand and explain that we are all human beings, of course we are all Muslims, but there is a difference between us that must remain.

 That difference is the difference of community, the difference of tribe, the difference of color.

 Now the identity of man was not man, he was a nomad, he was a tribe, then there was a tribe among the tribes.

 Now everyone wanted to prove that my status is high and my status is privileged.  It was necessary for him to say less and understand the other.  Now everyone was destitute and whoever did not join the race became a coward and a scoundrel of the times.

 Now the house was a little older and bigger, but it will still start to get cramped.  The lands that used to be close to each other, whose stomachs were ripped to shreds, whose fragrance was enjoyed, have now become a source of hatred.

 The consciousness that came was now that everyone had access to the Patwari Tehsildar and then the system from above that had to fight each other to fill its stomach.

 Hatred had now reached every doorstep. We had lost what we call love.  Now the lesson of humanity and Islam was starting to get poisoned. Now even God was angry.

 Then the hatred would increase to its end. Man was ready to kill man.  Intoxicated with superiority, we had destroyed the peace of home. We had forgotten that the greatest superiority in the universe is moral superiority.

 Now our connection with Akhlaq was only that Akhlaq was the name of only two servants of our village but we did not even consider them as Akhlaq. We made one Khaqi and the other Mana.

 Now we were looking for reasons to conquer each other.  Then nature did not forgive, it also gave us a chance.

 When we failed to conquer each other by carnage, it turned to murder.  Now this process is going on continuously.  Now we will also be the adornment of newspapers and TV.  Now hardly a day goes by when no one from our village stands in the courts.

 The FIR has become so much that now we have to find out if there is any person in our village who has not been charged.

 Now only a few of these ignorant elders are alive who are alive, they are in a life and death struggle. If one of them dies, the other wants to see his face, but we conscious people are not allowed to do this ignorant act.  Give it because it threatens to insult us.

 These hatreds divided not only human beings but also water, schools and mosques.  Now even God's house is no longer God's house.

 Everyone is broken inside, but still stubborn.  He wants to promote hatred with hatred.  Now the message of love is considered a betrayal of the community tribe.  Now dua is also just dua khair. Dua khair has a wonderful meaning.  Expressing hatred towards each other, the name of complete boycott has been changed to Dua Khair.

 But ...

 The question is how long?

 Wouldn't it be nice if we could still get rid of all the hatred inside us and eat the bitter pill of praying for others.  Then maybe Allah will forgive us and we will come out of this fire of hatred so that no child will be an orphan, no one else's honeymoon, no one's lap will be empty.  So that we can live the precious blessing of life, enjoy the beauty of this universe, create an environment for our future generations to reach the heights of consciousness, action and character so that the beautiful ignorance that has returned  Human beings were placed on a high moral level

No comments:

Post a Comment

Thank you for comenting