*گل دستہ قرآن*
*نویں پارے کا خلاصہ*
نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب علیہ السلام کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ حقیقی خسارہ اور گھاٹا تو شعیب علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کے لیے تھا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھول دیں گے‘ لیکن چونکہ وہ اللہ کے احکامات کو جھٹلاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے دربار میں آمد کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کو توحید کی دعوت دینے آئے اور فرعون نے سر کشی کا مظاہرہ کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اللہ کی عطا کردہ نشانیوں کو ظاہر فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر گرایا تو وہ بہت بڑا اژدہا بن گیا‘ آپ نے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ روشن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی واضح نشانیوں کو دیکھ کر بھی فرعون اور اس کے مصاحب سرکشی پر تلے رہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جادوگر قرار دے دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے فرعون اور اس کے قبیلے پر مختلف قسم کے عذاب مسلط کیے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی پھلوں کے نقصانات کے ذریعے‘ کبھی خون کی بارش کے ذریعے‘ کبھی جوؤں‘ مینڈکوں اور ٹڈیوں کی بارش کے ذریعے ان پر اپنے عذاب نازل کیے۔ ہر دفعہ آتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر آلِ فرعون اپنی اصلاح کا وعدہ کرتے‘ لیکن جب وہ عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ نافرمانی پر آمادہ ہو جاتے، یہاں تلک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان کو سمندر میں غرق کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سے ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور چالیس روز تک آپ سے کلام کرتے رہے۔ اس کلام کے دوران جناب موسیٰ علیہ اسلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: اے پر وردگار! کیا میں تجھے دیکھ نہیں سکتا؟ تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ نہیں! ایک دفعہ کوہِ طور پر نظر کریں‘ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ جما رہا تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی تجلیات کو کوہِ طور پر گرایا تو طور ریزہ ریزہ ہو گیا اور جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب جناب موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آئے تو انہوں نے کہا: اے پر وردگار! آپ کی ذات پاک ہے اس بات سے کہ ان آنکھوں سے آپ کو دیکھا جا سکے۔
موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے گئے تو آپ اپنی عدم موجودگی میں جناب ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم کے نگران کے طور پر مقرر کر کے گئے تھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے سونے اور چاندی کا ایک بچھڑا بنا کر اس میں جبرائیل علیہ السلام کے قدموں سے چھونے والی راکھ کو ڈال کر جادو پھونکا تو اس میں سے حقیقی بچھڑے کی طرح آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلا م کی قوم کے لوگوں نے اُسے پوجنا شروع کر دیا۔ ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ یہ شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے‘ لیکن ان نادانوں نے جناب ہارون علیہ السلام کی نصیحت کو پس پشت ڈال دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد جب تورات کو لیے ہوئے پلٹے تو اپنی قوم کے لوگوں کو شرک کی دلدل میں دھنسے ہوئے پایا۔ آپ اس منظر کو دیکھ کر اتنا غضبناک ہوئے کہ آپ نے جناب ہارون کی داڑھی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ جناب ہارون علیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلا م سے کہا کہ اے برادرِ عزیز! میں نے ان کو بہتیرا سمجھایا‘ لیکن انہوں نے میری کسی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ میں نے اس لیے زیادہ اصرار نہیں کیا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ نے اپنے اور جناب ہارون کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ پروردگار! ان کے اور فاسقوں کے درمیان تفریق پیدا فرما دے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن والی آزمائش کا بھی ذکر کیا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک بستی کے رہنے والے یہودیوں کو اللہ نے ہفتے کو مچھلیوں کے شکار سے منع فرما دیا تھا۔ وہ ہفتے کے دن جال لگا لیتے اور اتوار کو مچھلیاں پکڑ لیتے۔ ان نافرمانوں کو اس بستی کے ایک گروہ نے نیکی کی نصیحت کی جبکہ ایک گروہ غیر جانبدار تھا۔ غیر جانبدار گروہ نے نصیحت کرنے والے گروہ کو کہا: تم ان لوگوں کو سمجھا کر کیا کر لو گے جو ہلاکت یا اللہ کے عذاب کا نشانہ بننے والے ہیں؟ اس پر نصیحت کرنے والی جماعت نے کہا: اس کارِ خیر سے ہمارا عذر ثابت ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ بھی راہِ راست پر آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کو عذا ب کا نشانہ بنا دیا اور ان کے چہرے اور جسم مسخ کرکے انہیں بندروں کی مانند کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺکی دو عظیم خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی مذکور تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور آپﷺ کی رسالت زمانوں اور علاقوں کی حدود سے بالاتر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت نام ہیں اور ہمیں اللہ کو ان ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آکر ان سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ اللہ نے کہا کہ آپ ان کو فرما د یجیے کے اللہ کے سوا اس کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو اس کو توجہ سے سننا چاہیے اور خاموشی کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توجہ سے قرآن سننے کی وجہ سے انسانوں پر رحم فرمائے گا۔
*سورۃ الانفال*
سورۃ الاعراف کے بعد سورۃالانفال ہے۔ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے بدر کے معرکے میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے باوجود ان کو کافروں پر غالب کیا اور ان کی مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے اتارے۔ سورت آل عمران میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے تین ہزار اور اس کے بعد صبر و استقامت کے مظاہرے کی صورت میں پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو درحقیقت مومنوں کے لیے ایک بشارت ہے‘ اصل مدد تو اللہ کی نصرت ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ ایمان کو جب اللہ اور اس کے رسول بلائیں تو ان کو فوراً ان کی پکارکا جواب دینا چاہیے‘ اس لیے کہ ایمان والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر عمل پیرا ہو کر ہی زندگی ملتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ جس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مو جود ہوں یا جس قوم کے لوگ استغفار کرنے والے ہوں ان پر اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا‘ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ کے پاس عذاب سے بچنے کے لیے آج بھی استغفار کا ہتھیار موجود ہے۔
*دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!*
* Flower band Quran *
* Summary of Ninth Mercury *
The ninth verse also begins with Surah Al-A'raf. In the beginning there is the incident of Hazrat Shoaib (as). The people of his nation had become blind in their love of wealth and had forgotten the distinction between halal and haraam. When the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) ordered them to weigh and measure in full, they said to each other, "If you follow Shoaib (peace and blessings of Allaah be upon him), you will lose." Allah Almighty says that the real loss was for those who denied Shoaib (peace be upon him). In this verse, Allah also said that if the people of the settlements adopt faith and piety, then Allah will open for them the gates of blessings from the heavens and the earth. But since they deny the commands of Allah, The Almighty seizes them. In this passage, Allah mentions the arrival of Moses (peace be upon him) in the court of Pharaoh and said that when Moses (peace be upon him) came to invite Pharaoh to Tawheed and Pharaoh showed disobedience, Moses (peace be upon him) by the command of Allah. He revealed the signs given by Allah. When he dropped his staff on the ground, it became a huge dragon. He put his hand under his armpit and pulled it out, then it became bright. Even after seeing such clear signs of Allah, Pharaoh and his companions remained submissive and declared Moses and Aaron to be magicians. In this verse, Allah Almighty also mentioned that Allah imposed various kinds of punishments on Pharaoh and his tribe. Allah Almighty sent down His torment on them sometimes through the loss of fruits, sometimes through the rain of blood, sometimes through the rain of lice, frogs and locusts. Every time the Pharaoh's family would see the torment coming, they would promise their correction, but when that torment was averted, they would be ready to disobey again, until Allah Almighty drowned them in the sea as a reward for their disobedience.
In this passage, Allah Almighty also mentioned that Allah Almighty gave the privilege of being the companion of Prophet Moses (peace be upon him) and spoke to him for forty days. During this speech, Moses (peace be upon him) asked Allah Almighty: O Lord! Can't i see you So Allah Almighty said no! Take a look at the mountain. If this mountain is still in its place, you can see me. When Allah Almighty revealed His manifestations in the form of a mountain, it disintegrated and Moses (peace be upon him) fainted. When Moses (peace be upon him) came to his senses, he said: O my Lord! Your essence is pure so that you can be seen with those eyes.
When Moses (peace be upon him) went to meet Allah Almighty as a mountain, he had appointed Aaron (peace be upon him) as the guardian of his people in his absence. Taking advantage of the absence of Moses, the Samaritan sorcerer made a calf of gold and silver and poured ashes on it with the ashes of Gabriel's footsteps. Gone. The people of Moses' people began to worship him. Aaron (peace be upon him) explained to his people that this is shirk and it should be avoided. But these ignorant people ignored the advice of Mr. Aaron (peace be upon him). When Moses (peace be upon him) returned with the Torah after meeting Allah, he found his people drowning in the mire of polytheism. You were so furious at the sight that you grabbed Mr. Haroon's beard. Aaron (peace be upon him) said to Moses (peace be upon him): O dear brother! I explained a lot to them, but they did not accept any of my advice. I did not insist that you say that I have divided the children of Israel. When the anger of Moses (peace be upon him) cooled down, he prayed to Allah for himself and for Aaron, saying: Lord! Make a distinction between them and the transgressors.
In this blessed Surah, Allah Almighty also mentions the test of the Sabbath that Allah forbade the Jews living in a settlement by the sea to go fishing on Saturday. They set nets on Saturdays and caught fish on Sundays. These disobedient people were advised by one group of this town to do good while another group was neutral. The neutral group said to the admonishing group: What will you do with those who are about to perish or suffer the punishment of Allah? The party advising him said: This good deed will prove our excuse and maybe these people will also come to the right path. Allah Almighty punished those who disobeyed Him and distorted their faces and bodies and made them look like monkeys.
In this passage, Allah Almighty has mentioned two great qualities of the Prophet. Allaah says that the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) was mentioned in the Torah and the Gospel. Allaah also says that the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) has been sent by Allaah to all mankind and that His Messenger is beyond the bounds of time and place.
In this passage, Allah also mentions that Allah has beautiful names and we should call Allah by these names and Allah also mentions that people come to the Messenger of Allah and ask him. When will the Hour come? He said, "Say to them, 'No one knows its time except Allah.' At the end of this Surah, Allah Almighty said that when the Qur'an is being recited, it should be listened to attentively and silence should be observed. Allah Almighty will have mercy on human beings for listening to the Qur'an attentively.
* سورۃ الانفال *
Surah Al-A'raf is followed by Surah Al-Anfal. In Surah Anfal, Allah states that in the battle of Badr, Allah defeated the disbelievers despite the small number of Muslims and sent down a thousand angels to help them. In Surah Al-Imran, Allah has said that Allah has promised the descent of three thousand and then five thousand angels in the form of demonstration of patience and perseverance. He also said that the help of angels is in fact a good news for the believers. The real help is the help of Allah.
After that, Allah Almighty mentioned that when the believers call Allah and His Messenger, they should immediately respond to their call, because the believers are called by Allah and His Messenger (peace and blessings of Allah be upon him). Life is found only by following the call of God.
In this passage, Allah also mentions that the punishment of Allah cannot come upon the place where the Messenger of Allah (peace be upon him) is present or the people of whom the people are seeking forgiveness. The Muslim Ummah still has the weapon of Istighfar to escape the torment after the demise of Allah.
* May Allah help us to read, understand and act on the Holy Quran, Amen! *
No comments:
Post a Comment
Thank you for comenting