تربیت کے سات سال
یاد رکھنا! جب تک بچہ 7 سال کا نہیں ہو جاتا وہ چکنی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے خیالات سے لیکر اس کے رویے سب کے سب معاشرے اور گھر کی طرف سے وجود میں آتے ہیں، وہ صرف "طوطے" ہوتے ہیں جو آپ سے سنیں گے اور جو آپ کو کرتا دیکھیں گے ویسا ہی بولنا اور ویسے ہی کرنا شروع کر دیں گے۔ بچے کے یہ 7 سال ماں کے پاس امانت ہیں، یہ ماں کی گود، اس کی آغوش اور اس کی ممتا کی گرمی کے سال ہیں۔ ماں کو خصوصا اور گھر میں موجود باقی لوگوں کو عموما اپنے روز و شب، معاملات اور معمولات بہت دیکھ بھال کر گزارنے چاہییں۔ بہت سے ایسے سرسری اور معمولی واقعات جو شاید آپ کے نزدیک سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں بچے ان کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔
ماں کی ایک ایک حرکت، باپ کی ہر ایک ادا، گھر میں موجود ہر فرد کا اس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ رویہ، ماں اور باپ کا آپس میں اور گھر میں موجود افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق یہ سب ایک بچہ اچھی طرح نہ صرف نوٹ کرتا ہے بلکہ من و عن اس پر عمل کرنا اپنا فرض بھی سمجھتا ہے۔آپ کبھی غور کر لیں۔ کسی بچے کو جھوٹ، غیبت اور نقل اتارنے کی تلقین نہیں کی جاتی ہے، کوئی کتاب لاکر نہیں دی جاتی، جھوٹ اور غیبت کے حق میں لیکچرز نہیں دیے جاتے، "ایکٹیویٹی بیسڈ" جھوٹ اور غیبت کی مشقیں نہیں کروائی جاتیں۔ مگر وہ یہ سب کتنے آرام سے سیکھ لیتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سچ اور برائی سے روکنے کی تلقین اور لیکچرز بھی ہوتے ہیں، مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں، کتابوں میں سے اچھے اچھے واقعات پڑھ کر بھی سنائے جاتے ہیں لیکن بچے پھر بھی جھوٹ اور برائی کی طرف رہی راغب ہوتے ہیں کیوں؟
ایک دفعہ ایک اسکول کی پرنسپل سے بچوں کے بات بے بات لڑنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ "سر! اسلامیات ہی کیا اب تو اردو اور انگریزی تک کی کتابوں میں ہم وہ اسباق پڑھا رہے ہیں جس میں سیرت سے صلح صفائی کے واقعات مذکور ہیں". ذرا بتائیے؛
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے؟
7 سال بچے کو پھول کی طرح رکھیں۔ آنکھوں سے لگا کر، سینے سے چمٹا کر اور اپنا بنا کر۔ اس عمر میں بچوں کو نصیحتیں نہیں کی جاتیں بلکہ نصیحتیں "دکھائی" جاتی ہیں۔ بول کر مت دکھائیے بلکہ کرکے بتائیے۔ بچے کے کسی بھی غلط عمل اور حرکت پر اسے آپ صحیح کرکے دکھائیے، بچہ اگر چھوٹی بہن یا بھائی کو مارتا ہے تو آپ اسے پیار کر لیجئے، یعنی چھوٹی بہن یا بھائی کو۔ بچہ کسی چیز کو کہیں ایسے ہی پھینکتا ہے تو آپ اس سے کچھ بھی بولے بغیر اسے جگہ پر رکھ دیجیے، بچہ پانی کے قریب نہیں جانا چاہتا اور ڈرتا ہے تو بس آپ پانی میں جائیے، پانی سے کھیلئیے، کھانا نہیں کھاتا تو اسے دسترخوان پر بٹھا کر آپ خود کھانا کھائیے۔ بچے کی یہ عمر آپ کے خاموش رہنے کی عمر ہے۔ بس غور سے دیکھیں کہ بچہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟ آپ کو نبی صلی اللہ وسلم کی سیرت سے بھی 7 سال تک کسی بھی قسم کی کوئی نصیحت اپنے نواسے نواسیوں کو نہیں ملے گی۔ بس کندھے پر اٹھا کر بازار میں نکل جانا، خود اپنی پیٹھ پر بٹھا کر زمین پر چلنا اور صرف پیار کرنا، حتی کہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں بھی ان کے کھیل کو محبت اور پیار سے قبول کرنا، اپنی زبان کے بجائے محض عمل سے کرکے دکھانا، یہاں تک کے 7 سال سے پہلے فرض نماز کی بھی ترغیب سرے سے دین میں شامل نہیں ہے۔
اگلے سات سال یعنی 7 سے 14 یہ باپ کے پاس بچے کے امانت ہیں۔ ان سات سالوں میں بچے کو غلام کی طرح رکھئیے۔ بچے کی آدھی شخصیت اور لگ بھگ پچاس فیصد عادات اسی عمر میں کسی حد تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ جب بچہ 7 سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دو، نماز کی نصیحت کرو، جب 9 سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کر دو، 10 سال کا ہوجائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو، جب 12 سال کا ہوجائے تو اس کی نگرانی شروع کردو اور یہ نگرانی "چوکیدار اور ایجنسیوں" والی نہ ہو بلکہ اپنے پاس بچے کی پوری معلومات رکھیں۔ بچے کے شوق، اس کی دلچسپیاں، اس کے دوست، اس کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں اور اس کی کتابوں میں بننے والی "تصویریں"۔ یہ سب کے سب آپ کے علم میں ہونا چاہیے اس عمر میں نصیحت شروع کی جائے گی لیکن محبت، ہمدردی اور تڑپ کے ساتھ، نہ کہ غصہ اور نفرت کے ساتھ۔ ذہن میں رہے کہ بچے کو ہاتھ لگانا، مارنا، بدتمیزی و بداخلاقی کرنا، بچے کو برا بھلا کہنا اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنانا بہرحال اس عمر میں بھی جائز نہیں ہے۔
بچے کی عمر کا تیسرا حصہ 14 سال سے 21 سال تک کا ہوتا ہے۔ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہوتا ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ اس عمر میں بچے کو دوست کی طرح رکھو۔ نادان ہیں وہ والدین اور اساتذہ جو نویں اور دسویں کے بچے بچیوں کو مارتے یا ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں نہ صرف ان کا جسم مضبوط ہونا شروع ہوجاتا ہے بلکہ نفس کے ساتھ بھی کشمکش شروع ہوچکی ہوتی ہے، جبکہ والدین 35 اور 40 کی عمر سے آگے نکل کر اپنے زوال کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ 7 سے 14 سال والی عمر میں اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتے تو پھر اس کے بعد باپوں کی زندگی تنہائی میں گزرتی ہے۔
عام طور پر بڑھاپے میں بچے ماں کا سہارا اور باپ کی کمزوری بن جاتے ہیں، کیونکہ باپ نے اپنی ساری زندگی "بچوں کے لئے" جو کھپادی ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ "اگر اپنے بچے کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو آدھا اور دئیے جانے والے وقت کو دگنا کر دو". 14 سال کی عمر کے بعد بچوں سے "یارانہ" لگا لیں۔ ان کو اپنا دوست بنائیں۔ ان کے دوستوں سے دوستی اور سہیلیوں کو بیٹی بنالیں، ان کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط کریں کہ وہ اپنی غلط بات بھی بتانے کے لئے آپ ہی کے پاس آئیں اور آپ ایک اچھے دوست کی طرح اس کو ہمدردی کے ساتھ نصیحت کر سکیں۔ اگر وہ کسی غلط کام میں ملوث ہو گیا یا ہو گئی ہے اور اسے کوئی لڑکا یا لڑکی پسند بھی آگئی ہے تو بھی پورے حوصلے اور تحمل کے ساتھ اس کو سنیں، اس کے خیرخواہ بنیں اور آپ کے اوپر اولاد کا آخری حق بھی یہی ہے کہ اس کے بگڑنے سے پہلے اس کے لئے حلال رشتے کو آسان بنا دیں۔ اسی لیے کہا گیا گیا کہ جب بچہ 17 سال کا ہوجائے تو اس کی شادی کی فکر کرو۔
21 سال کے بعد تو بچے بچیوں کی ویسے بھی اپنی ہی زندگی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے معاشرے میں ایک اچھا اور کارآمد فرد بنا کر بھیجا ہے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ کے لیے صدقہء جاریہ اور سرمایہء افتخار ہے ورنہ دوسری صورت میں آپ کی ہی اولاد آپ کے لئے اللہ نہ کرے ذلت ورسوائی کا ذریعہ بن جائے گی_!!_
Seven years of training
Remember! Until the child is 7 years old, it is like clay. From his thoughts to his attitudes all come into being from society and home, they are just "parrots" who will hear from you and see what you do, start talking and doing the same thing. Will give These 7 years of the child are entrusted to the mother, these are the warm years of the mother's lap, her arms and her affection. The mother in particular and the rest of the family in general should take great care of their day and night, affairs and routines. Many superficial and trivial events that may not be of much importance to you are observed by children.
Every single action of the mother, every payment of the father, the attitude of every person in the house towards him and others, the relationship of mother and father with each other and the people in the house with each other are all good for a child. Not only does he take notes, but he also considers it his duty to act on it. No child is instructed to lie, backbite and copy, no books are brought, no lectures are given in favor of lies and backbiting, no "activity based" lies and backbiting are practiced. But how easily he learns all this, while in comparison to it there are also lectures and teachings to prevent truth and evil, exercises are also done, good incidents from books are also read and narrated but the children then Why are also attracted to lies and evil?
Once the principal of a school was asked about the children fighting without talking, he simply replied, "Sir, what about Islam? Now we are teaching lessons in books up to Urdu and English in which Sira Incidents of reconciliation are mentioned. Just tell me
What is the name of this accident time?
Keep a 7 year old child like a flower. Apply to the eyes, pinch to the chest and make your own. At this age children are not given advice but advice is "shown". Do not speak but show. Correct any wrongdoing and action of the child. If the child kills the younger sister or brother, then love him, that is, the younger sister or brother. If a child throws something like this somewhere, you put it in place without saying anything to it. If the child does not want to go near the water and is scared, just go into the water, play with the water, if he does not eat, give him a table. Sit down and eat your own food. This age of the child is the age of your silence. Just look carefully at what the child is doing and why. You will not get any kind of advice from the life of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) to your grandchildren for 7 years. Just carry it on your shoulders and go out to the bazaar, sit on your back and walk on the ground and just love, even in a great act of worship like prayer, accepting their game with love and affection, just action instead of your tongue The motivation to perform obligatory prayers even before the age of 7 is not included in the religion at all.
For the next seven years, from 7 to 14, the father has the child's trust. Keep the child as a slave for seven years. Half of a child's personality and about 50% of habits are somewhat complete at that age. That is why he said that when a child is 7 years old, encourage him to pray, advise him to pray, when he is 9 years old, separate his bed, when he is 10 years old and still does not pray, then be strict on him. When he turns 12, start monitoring him, and this supervision should not be from "watchdogs and agencies" but to keep your child's complete information. The child's hobbies, his interests, his friends, the books he lives in, and the "pictures" in his books. All of this should be in your knowledge. Advice will be started at this age but with love, compassion and anguish, not with anger and hatred. Keep in mind that it is not permissible at this age to touch a child, to beat him, to insult him, to call him a bad name and to subject him to mental torture.
One-third of a child's age ranges from 14 to 21 years. He has reached the age of puberty, so it is said to keep the child as a friend at that age. Ignorant are parents and teachers who beat or raise their hands against ninth- and tenth-graders. At this age, not only does their body begin to become stronger, but also the struggle with the self has begun, while the parents move faster towards their decline beyond the age of 35 and 40. If you do not strengthen your relationship with your children between the ages of 7 and 14, then the life of fathers is spent in solitude.
Usually in old age children become the support of the mother and the weakness of the father, because the father spends his whole life "for the sake of the children". That is why it is said, "If you want to see your child as a good person, halve the amount spent on it and double the amount of time it takes." "Help" children after the age of 14. Make them your friends. Make friends with their friends and make friends with them, strengthen your relationship with them so that they come to you to tell you their wrong things and you can give them sympathetic advice like a good friend. Even if he has been involved in a wrongdoing and has liked a boy or a girl, listen to him with full courage and patience, be kind to him and this is the last right of your children over you. Make it easy for him to have a halal relationship before it gets worse. That is why it was said that when a child reaches the age of 17, worry about his marriage.
After 21 years, the children have started their own lives anyway. If you have sent him as a good and useful person in the society, then he is an ongoing charity and a source of pride for you both in this world and in the hereafter, otherwise your own children may become a source of humiliation and disgrace for you. Will _ !! _
No comments:
Post a Comment
Thank you for comenting