👈 *قدرت کی ڈسٹری بیوشن* 👉
پروفیسرصاحب، آپکے کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا ’’تین‘‘۔
انہوں نے پھرپوچھا’’انکی عمریں کیاہیں؟میں نے جوا ب دیا ’’نوسال،bسات سال اور تین سال‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے کہا ’’ پھر تو یقیناآپ یونیورسٹی سے واپسی پر ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کرجاتے ہوں گے؟‘‘ میرے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے پھر استفسار کیا ’’آپ ان چیزوں کو ان میں کیسے تقسیم کرتے ہیں؟
میں نے کہا ’’میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں اور چونکہ بیٹا بڑا ہے اس لیے میں اپنی لائی ہوئی تمام چیزیں اس کے حوالے کر دیتا ہوں اوراس سے کہتا ہوں کہ انہیں آپس میں بانٹ لو‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے فرمایا ’’پروفیسرصاحب،اگر آپ کو کسی دن یہ پتا چلے کہ آپکاصاحبزادہ آپکی لائی ہوئی چیزیںآپکی ہدایت کے مطابق تقسیم نہیں کرتا یا انہیں بانٹنے میں انصاف سے کام نہیں لیتاتوآپ کیا کریں گے؟
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’ اگرکبھی ایسا ہوا تو ا سکا حل تو بہت آسان ہے، میں اگلی بار اس کو صرف اسی کا حصہ دوں گا اور بیٹیوں کا حصہ انہیں خود الگ سے دے دیا کروں گا‘‘۔
یہ سن کر ان کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے کہا’’پروفیسر صاحب! آپکی اس بات میں وہی فلسفہ کارفرما ہے جسکی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنی عنایات تقسیم کرنے کا فارمولا طے کر رکھا ہے
۔اللہ پاک آپ کوجو رزق اور نعمتیں عطا فرماتا ہے وہ صرف اور صرف آپ کے لئے نہیں ہوتیں‘ ان میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے اور جب تک آپ وہ حصہ ان حقداروں تک پوری ایمانداری اور انصاف سے پہنچاتے رہتے ہیں ‘آپ کو وہ حصہ اسی تناسب سے ملتا رہتا ہے اور آپ بھی دنیا کی نظرمیں مالدار‘ سیٹھ‘ جاگیردار اورسرمایہ دار بنے رہتے ہیں۔لیکن جب اس تقسیم میں کوتاہی یا بداعتدالی ہوتی ہے تو اللہ پاک آپ کو صرف آپکے حصے تک محدود کر دیتا ہے اور اس ریل پیل سے محروم کر دیتا ہے۔
پھر وہ رب کریم وہ رزق یا تو ان لوگوں تک براہ راست پہنچانا شروع کر دیتا ہے
یا اس رزق کی تقسیم کیلئے کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘مقرر کر دیتا ہے اور دنیایہ سمجھتی ہے کہ یہ سیٹھ دیوالیہ ہو گیا
ہے۔ اسی دوران یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے پر اللہ کا بہت کرم ہے‘ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے‘ دنوں میں کروڑ پتی ہو گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہوتا ہے جسے رب کریم نے آپ کو ہٹا کر آپکی جگہ نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دیا ہوتا ہے‘‘۔
دیکھا جائے تو اللہ کی تقسیم کا یہ معاملہ صرف رزق تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس میں عزت ‘ سکون‘ امن اور آسانیاں بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر عزت کا معاملہ بڑا خاص الخاص ہے اور اس کو بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک عزت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ ہم نے اللہ کی دی ہوئی عزت کو اپنی ذاتی کمائی سمجھ لیا ہے۔ہم اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اس عزت کے ہم بلا شرکت غیر مالک ہیں۔یہ ساری کی ساری ہماری ذاتی میراث اور ہماری اہلیت اور صلاحیتوں کا ثمر ہے۔حالانکہ ایسا قطعاََ نہیں ہے۔۔
آپ اپنے گردواطراف میں نظر دوڑائیں تو آپ کو بے چین‘ بے سکون اور ہیجانی کیفیت مین مبتلا لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔بد قسمتی سے ہم من حیث القوم بھی انہی کیفیات کا شکار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟باقی اقوام عالم کے مقابلے میں ہم اتنے محروم کیوں ہیں؟ کیا یہ ہماری بداعمالیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے یا کوئی اور معاملہ ہے؟
ہم نے رب کی دی ہوئی عزت سے لوگوں کا حصہ نکالنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح عزت کی ترسیل میں کمی واقع ہو گئی ہے‘ ہم نے اپنے رب کی دی گئی آسانیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور وہ آسانیاں بھی ہم سے چھن رہی ہیں
ہم اپنے غریب ہمسائے کے مجرم ہیں‘ اس غریب بچی کے مجرم ہیں جس کی شادی کا کل خرچ ہمارے بچے کی سالانہ پاکٹ منی کے برابر ہے۔ ان طعنوں میں برابر کے شریک جرم ہیں جووہ تمام عمر کم جہیز لانے پر سہتی ہے۔ہم اس بیمار بچے کے مجرم ہیں جس کے علاج کا خرچ ہمارے گھر میں کھڑی بہت سی گاڑیوں میں سے کسی ایک کی قیمت میں ہو سکتا ہے۔ ہم اس عرضی خواں کے مجرم ہیں جو قرض لیکر دور دراز کے گاؤں سے ہمارے دفتر اس غلط وقت پہنچتا ہے جب ہم اپنے کسی عزیز یا دوست سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ اگلے دن کیلئے ٹال دیا جاتا ہے۔ ہم اس گھریلو ملازمہ کے مجرم ہیں جس کا بیٹا ہمارے گھر کھڑی ٹوٹی سائیکل‘ پرانے کپڑوں اور جوتوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اس اجتماعی بے چینی‘ بے سکونی‘بے برکتی اور ہیجان سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے۔
ہمیں اپنے روزمرہ کے رویوں کو بدلنا ہوگا‘
ہمیں یہ سمجھنا پڑے گاکہ مخلوق کی عزت دراصل اسکے خالق کی عزت اور مخلوق سے پیار دراصل اس کے خالق سے پیار ہے۔ کیا ہم ان اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں انسان تو انسان ‘ جانور بھی اپنے حصے کی عزت‘ پیار اور سہولیات کا حصہ پوری ایمانداری اوردھڑلے سے وصول کرتا ہے۔ جب ہم پیار کی جگہ نفرت‘ عزت کی جگہ حقارت اور بخشش کی بجائے۔
محرومیوں کا بیوپار کریں گے تو پھر ہمیں یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ خالق دو جہاں جلد یا بدیر ہمیں ہٹا کر کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دے گا
👈 * Distribution of nature * 👉
Professor, how many children do you have? I said, "Three."
He asked again, "What are their ages?" I replied, "Nine years, seven years and three years."
On hearing this, he said, "Then you will surely bring something for them on your return from university?" When I answered in the affirmative, he again asked, "How would you distribute these things among them?" Are there?
I said, "I have a son and two daughters, and since the son is older, I hand over everything I have brought to him and ask him to share them."
On hearing this, he said, "Professor Sahib, what will you do if one day you find out that your son does not distribute the things you have brought according to your instructions or does not use justice in distributing them?"
I laughed and said, "Even if it happens, the solution is very simple. Next time, I will give him only his share and the daughters' share will be given to him separately."
Hearing this, a meaningful smile appeared on his face and he took a deep breath and said, “Professor! You are driven by the same philosophy on the basis of which God has set the formula for distributing His gifts.
The sustenance and blessings that Allah (swt) bestows on you are not for you alone. Many people have a share in them and as long as you continue to deliver that share to those who are entitled to them with complete honesty and justice That share is given in the same proportion and in the eyes of the world you also remain wealthy 'Seth', feudal lord and capitalist. The rail loses the peel.
Then the Almighty begins to deliver that provision directly to them
Or appoint a new "distributor" for the distribution of this provision and the world thinks that this seth has gone bankrupt.
Is. At the same time, it is said that Allah is very kind to the son of such and such. He is progressing twice a day and four times a night. He has become a millionaire in a matter of days. This is the same person whom the Lord has removed and appointed a new "distributor" in your place.
In fact, the issue of Allah's distribution is not limited to sustenance. It includes dignity, peace, tranquility and comfort. The issue of honor in particular is very special and needs to be understood very well. God is very sensitive in matters of honor. We have taken the honor bestowed by Allah as our personal earnings. We are under the impression that we are the owners of this honor without our participation. All this is the result of our personal heritage and our ability and capabilities. Absolutely not.
If you look around you, you will see a crowd of people in a state of restlessness and anxiety. Unfortunately, we as a nation are also suffering from the same conditions. Why is this so? Why are we so deprived compared to the rest of the world? Is it the result of our misdeeds and sins or is it something else?
We have stopped taking away the share of people from the honor given to us by our Lord and thus the transmission of honor has decreased. We have stopped sharing the facilities given by our Lord and those facilities are also being taken away from us.
We are guilty of our poor neighbor, of this poor girl whose total marriage cost is equal to our child's annual pocket money. There are equal partners in these taunts who endure bringing a low dowry all their lives. We are guilty of this sick child whose treatment can cost the price of one of the many cars parked in our house. We are guilty of a petitioner who takes a loan from a remote village to reach our office at the wrong time when we are busy gossiping with a loved one or friend and it is postponed for the next day. We are guilty of this housemaid whose son looks at our broken bicycle, old clothes and shoes in our house with a look of regret which we use and do not dare to give to anyone.
There is only one way out of this collective unrest, unrest, unhappiness and excitement.
We need to change our daily behavior. "
We have to understand that the honor of the creature is actually the honor of its creator and the love of the creature is actually the love of its creator. Can we compete with those nations where human beings, even human beings, receive their share of respect, love and facilities with full honesty and generosity? When we replace love with hatred, honor with contempt and forgiveness.
If we are going to trade deprivations, then we must believe that the Creator will sooner or later remove us and appoint a new "distributor".
No comments:
Post a Comment
Thank you for comenting